(اُردو ایکسپریس) یہ 1970 کی دہائی کی بات ہے، جب کراچی کے سول اسپتال سے ایک ایمبولینس سندھ کے شہر سانگھڑ کی طرف روانہ ہوئی۔ اس میں ایک نوجوان لڑکی کی میت تھی، جو کچھ دیر قبل ٹی بی کے جان لیوا مرض کے باعث انتقال کر گئی تھی۔ ایمبولینس میں لڑکی کی غمزدہ والدہ، چند عزیز و اقارب، اور ایک نوجوان نرس موجود تھیں، جبکہ گاڑی چلانے والا شخص کوئی اور نہیں بلکہ عبدالستار ایدھی تھے۔
یہ ایمبولینس شہروں اور دیہاتوں سے گزرتی ہوئی سانگھڑ کی حدود میں داخل ہوئی، جہاں ایک سنسان راستے پر چند گھڑسوار افراد نے اسے رکنے کا اشارہ دیا۔ یہ لمبے قد، سفید پگڑیوں میں ملبوس افراد عام مسافر نہیں بلکہ ڈاکو تھے، جو لوٹ مار کے ارادے سے ایمبولینس کے سامنے کھڑے ہو گئے۔
ایمبولینس رُکی تو لڑکی کی ضعیف والدہ باہر نکلیں اور سندھی زبان میں ڈاکوؤں کو بتایا کہ ان کی بیٹی بیماری کے باعث وفات پا چکی ہے، اور یہ ایمبولینس اسے آخری سفر پر لے جا رہی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ڈاکوؤں کو یہ بھی بتایا کہ گاڑی چلانے والا شخص کوئی عام ڈرائیور نہیں بلکہ خود عبدالستار ایدھی ہیں۔
یہ سنتے ہی ڈاکو اپنے گھوڑوں سے نیچے اتر آئے۔ انہوں نے بغور ایدھی صاحب کو دیکھا، جیسے وہ تصدیق کر رہے ہوں کہ واقعی وہی ہیں۔ پھر ان میں سے ایک ڈاکو نے ایدھی صاحب کا ہاتھ تھاما اور کہا،
"ہم مر جائیں گے تو ہمارے ماں باپ ہمیں لینے نہیں آئیں گے، مگر ہمیں یقین ہے کہ تم آؤ گے اور ہماری قبروں پر مٹی بھی ڈالو گے۔”
یہ کہہ کر ڈاکو نے ایدھی صاحب کے ہاتھ کو عقیدت سے چوما، اپنی جیب سے سو روپے نکالے اور ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے چندہ دیا۔ پھر احترام کے ساتھ ایمبولینس کو رخصت کر دیا۔
یہ واقعہ بلقیس ایدھی نے بی بی سی کو سنایا، جو اس سفر میں خود بھی موجود تھیں۔ وہی نوجوان نرس، جو ایمبولینس میں میت اور اس کے لواحقین کے ساتھ تھی، کوئی اور نہیں بلکہ خود بلقیس ایدھی تھیں۔
یہ وہ وقت تھا جب عبدالستار ایدھی کی انسانیت سے بھری خدمات کا چرچا شہروں، دیہاتوں، اور یہاں تک کہ ڈاکوؤں کے ٹھکانوں تک بھی پہنچ چکا تھا۔ لوگ انہیں نہ صرف جانتے تھے بلکہ بے پناہ عزت بھی دیتے تھے۔ یہ ان کے بے لوث مشن کی ایک ایسی کہانی ہے، جس کا آغاز ایک پرانی، جنگ زدہ ایمبولینس سے ہوا، مگر جس کی گونج آج بھی دلوں میں زندہ ہے۔