بلاگز

امریکی سفرنامہ : عمران ملک (قسط 1 )

Spread the love

آج سے تقریبا 17 سال پہلے جب امریکہ جانے کا اتفاق ہوا تو اس وقت امریکہ کیلئے کوئی ڈائریکٹ فلائیٹ نہیں ہوتی تھی سوائے پی آئی اے کے جو ہمیشہ فل ہی ہوتی تھی، اب قطر، ایمیریٹس، ترکش ایئر لائنز ڈائریکٹ فلائیٹ کی سہولت دے رہے ہیں جو ذرا بھی دلچسپ نہیں۔

ہیتھرو اترنا اور پھر امریکہ کیلیے جہاز پر سوار ہونے کا اپنا ہی مزہ تھا، اب 17 ستمبر کو براستہ قطر، اٹلانٹا کا سفر کرنا تھا، لاہور سے قطر تقریبا 3 گھنٹے اور پھر دوحہ قطر سے اٹلانٹا نان سٹاپ 15 گھنٹے کا سفر واقعی شدید تھکا دینے والا تھا، لاھور ایئر پورٹ پہنچے تو لمبی قطاریں دیکھنے کو ملیں، کیونکہ ایمیریٹس اور سعودی ایئر لائن کی عمرہ فلائیٹ کا وقت بھی یہی تھا، رش کی زیادتی کی وجہ سے سامان کی کلیئرینس اور پھر بورڈنگ پاس تک کا سفر آسانی سے طے ہوا، اور جب گھر کال کرنے کیلیے فون کو جیب میں چیک کیا تو فون نہیں تھا ساری جیبیں ٹٹولیں لیکن فون کہیں نہیں ملا، پھر یاد آیا وہ تو سیکورٹی چیک پر ٹرے میں رکھا تھا اور پھر نکالنا بھول گئے، شاید بڑھاپے نے دستک دینی شروع کر دی، جب مطلوبہ کاونٹر کیطرف پریشانی کے عالم میں آیا تو وہاں ایک اے ایس ایف کا ہنس مکھ اور کڑیل جوان میری پریشانی بھانپتے فورا بولا کے آپ اپنا موبائل فون تو نہیں ڈھونڈھ رہے، اور پھر اس نے شناختی کارڈ کا سکرین شاٹ لیا اور موبائل فورا میرے حوالے لیا، اس چستی پر دل شادمان ہو گیا۔

ویٹنگ ایریا میں عمرہ زائرین اکثریت میں تھے، میرے ساتھ ایک بزنس مین بھی عمرہ کیلیے جا رہے تھے، ہمارے سامنے کرسیوں پر شکر گڑھ کے نزدیکی گاوں کے زمیندار اپنی بیوی، بیٹے، بہو اور 4 پوتے پوتیوں کیساتھ براجمان تھے، سب سے بڑے بچے کی عمر بمشکل 5 سال تھی، وہ پہلی دفعہ عمرہ کیلیے جا رہے تھے اور احرام باندھنے کی کوئی ٹریننگ نہیں لی ہوئی تھی، ہمارے پاس آئے اور بولے احرام باندھنے کیلیے کیا کوئی مخصوص جگہ ہے، تو میرے ساتھ والے صاحب بولے نہیں صرف باتھ روم ہی مخصوص جگہ ہے، پھر پوچھنے لگے کے احرام باندھنے کیلیے کوئی ٹپ، صاحب نے اپنے تئیں ٹپ بتا دیں، بزرگ جب باتھ روم سے باہر آئے تو احرام کی ترتیب بالکل الٹ تھی، میں اور میرے صاحب فورا اٹھے کے انکا احرام ٹھیک کر دیں تاکہ بے پردگی کا عنصر نمایاں ناں ہو سکے، اور پھر انکے پوتے پوتیاں احرام میں مسلسل چیخ چیخ کر رو رہے تھے، کوئی زمین پر لیٹ رہا تو کوئی ہماری ٹانگوں سے لپٹ کر رو رہا، کیونکہ بزرگ کا بیٹا اور مسز دونوں موقع پر موجود نہیں تھے، ساتھ والے صاحب نے بڑی شائستگی سے بزرگ سے کہا کے بچوں کو پھر کبھی عمرہ کروا لیتے جب ذرا بڑے ہو جاتے، اب یہ سکون کیساتھ اپکو عمرہ نہیں کرنے دینگے، بزرگ کہنے لگے کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو، لیکن بچوں کو ناں لیکر جاتے تو گاوں میں ناک کٹ جاتی، خدا خدا کر کے بچوں کے والدین آئے اور ہمیں پتا چلا کے قطر فلائینٹ کی اناونسمینٹ ہو چکی، بزرگ کو الوداع کہا اور جا کر جہاز میں جابیٹھے ۔

(سفرنامہ ابھی جاری ہے!)

نوٹ: اُردو ایکسپریس ویب سائٹ اور اسکی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے