لاہور: (اُردو ایکسپریس ویب ڈیسک) اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کا کراچی میں خطاب کے دوران ایک پشون خاتون کو دیا گیا سخت جواب وائرل ہوگیا۔
تفصیل کے مطابق ڈاکٹر ذاکر نائیک نے باغ جناح کراچی میں ہفتے کی شام مجمع عام سے خطاب کیا گورنر سندھ ، اداکارہ یشما گل سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
لیکچر کے بعد سوال و جواب کی نشست کے دوران ایک لکی مروت سے تعلق رکھنے والی پشتون خاتون کے سوال نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو قدرے تلخ کردیا اور انہوں نے خاتون سے اپنے سوال پر معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا۔
آخر پشتون خاتون نے کیا سوال پوچھا؟
https://youtu.be/RVjJ7EMJoss?si=dq6_j7MoI1f_MJG6
سوال و جواب کی نشست کے دوران ایک خاتون نے سوال کیلئے مائیک تھاما اور بتایا کہ ان کا نام پلوشہ ہے اور وہ لکی مروت سے تعلق رکھتی ہیں۔
پلوشہ شہرزاد نے پوچھا کہ ہمارے علاقے کا سماج بہت اسلامی ہے، یہاں تک کہ خواتین گھروں بلاضرورت باہر نہیں نکلتیں اور مرد حضرات پانچ وقت کی نماز کے ساتھ تبلیغی جماعت کے ساتھ بھی جڑے رہتے ہیں۔
خاتون نے بتایا کہ حال ہی میں ہمارے علاقے لکی مروت میں تبلیغی جماعت کا ایک بڑا اجتماع بھی ہوا، خاتون کے مطابق دین سے اس قدر گہری وابستگی کے باوجود ہمارے معاشرے میں شادی شدہ مرد و عورت کے ناجائز تعلقات، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور سود جیسے برائیاں عام ہیں، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
پلوشہ نامی خاتون کا یہ سوال ڈاکٹر ذاکر نائیک کو قدرے بظاہر بڑا ناگوار گزرا اور انہوں نے ذرا سخت لہجے میں ان سے کہا کہ آپ کے سوال میں تکرار (تضاد) ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک معاشرہ مکمل اسلامی بھی ہو اور اس میں پیڈوفیلیا (بچوں کے ساتھ جنسی حرکات) بھی عام ہو۔
مبلغ ذاکر نائیک نے اصرار کیا کہ خاتون اپنے سوال کی غلطی تسلیم کریں، ورنہ غلط سوال پر معافی مانگیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک خاتون کے سوال سے یہ سمجھے کہ شاید وہ خاتون کسی پروپیگنڈے کے زیر اثر الزام لگا رہی ہیں، اس لیے کہنے لگے کہ اسلام میں پیڈوفیلیا کی کسی صورت اجازت نہیں ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک معاشرہ اسلامی ہو اور وہاں یہ حرکتیں عام بھی ہوں۔
لڑکی سے ڈاکٹر نائیک نے مزید کہا کہ آپ میڈیا پروپیگنڈے کے زیر اثر یہ الزام لگا رہی ہیں، جس پر آپ کو معافی مانگنی چاہئے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر طوفان
اس سوال و جواب کا کلپ سامنے آتے ہی ملک میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا اور ہر کسی نے اپنی افتاد فکر و طبع کے مطابق اس پر طبع آزمائی شروع کر دی۔
ایک حلقے کے مطابق ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بلا وجہ اور غیر ضروری طور پر اشتعال کا مظاہرہ کیا اور خاتون کے ایک معروضی سوال کو الزام قرار دے کر مسترد کردیا جو غلط رویہ ہے۔
جبکہ دوسرے حلقے کے مطابق خاتون چونکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دین اسلام میں ان حرکتوں کو سخت برا باور کیا گیا ہے پھر بھی دین سے جوڑ کر زیادتی کی اور غیر متعلق سوال پوچھا جس کا یہی جواب درست تھا جو ڈاکٹر نائیک نے دیا۔
اس بحث میں بہت سوشل میڈیا کی معروف شخصیات بھی شامل ہوئیں،صحافی فیض اللہ خان نے پلوشہ شہرزاد کے سوال کو درست ٹھہراتے ہوئے ڈاکٹر نائیک کے انداز اور رویے پر تنقید کی اور کہا کہ ان کی ٹیم کو چاہئے کہ ایسے لوکل ایشوز سے متعلق سوالات پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پہلے اچھی سمجھائیں اور ایسے سوالات کا پس منظر بتائیں تاکہ دوبارہ اس طرح کا واقعہ پیش نہ آئے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سبوخ سید نے بھی اس بحث میں حصہ لیا اور اپنی فیس بک وال پر لکھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب مقامی مسائل سے آگاہ نہیں ہیں، زبان کا مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ لہجے کی تلخی کا بھی مسئلہ ہے کیونکہ وہ بنیادی طور پر ایک مناظر ہیں اور مناظر فتح کے جذبے سے سوالوں کا جواب دیتا ہے