(اُردو ایکسپریس) اسلام آباد میں پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان پالیسی سطح کے مذاکرات کا آغاز آغاز ہوگیا، مذاکرات 5 دن تک جاری رہیں گے، حکومت کوایک ارب ڈالر کی قسط کے لیے نئے اہداف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ تکنیکی مذاکرات میں پاکستان سے ”ڈو مور“ کا مطالبہ سامنے آنے کا امکان ہے۔
مذاکرات میں آئندہ مالی سال کے بجٹ سے متعلق تجاویز پر بات چیت ہوگی، جبکہ کاربن ٹیکس اور گردشی قرض میں کمی کے لیے مزید اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق، بجلی کے بلوں میں 2 روپے 80 پیسے فی یونٹ سرچارج عائد کرنے کی تجویز زیر غور ہے جبکہ پٹرول اور ڈیزل گاڑیوں پر کاربن ٹیکس لگانے کے امکان پر بھی تبادلہ خیال ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں اور بوائلرز پر کاربن لیوی عائد کرنے کی تجویز پر غور کیا جائے گا، جبکہ مذاکرات میں نجکاری کے شارٹ ٹرم پلان پر بھی حتمی بات چیت ہوگی۔ اس دوران مختلف اداروں کی نجکاری کا جائزہ بھی لیا جائے گا، جبکہ الیکٹرک وہیکل پالیسی میں ٹیکسوں کے حوالے سے امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
مذاکرات کے اختتام پر آئی ایم ایف مشن مذاکرات سے متعلق ابتدائی بیان جاری کرے گا، جبکہ اقتصادی جائزہ مشن کی حتمی رپورٹ آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کو پیش کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ ایک ارب ڈالر کی قسط کی حتمی منظوری کا فیصلہ کرے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ پالیسی سطح کے مذاکرات آئندہ ہفتے ہی مکمل ہو جائیں گے، جبکہ آئی ایم ایف مشن مذاکرات کے بارے میں ابتدائی بیان بھی جائزے کے اختتام پر جاری کرے گا۔
اقتصادی جائزہ مشن کی حتمی رپورٹ ایگزیکٹو بورڈ کو پیش کرے گا، جس کے بعد آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ ایک ارب ڈالر کی حتمی منظوری کا فیصلہ کرے گا۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف مذاکرات کے تکنیکی مرحلے میں پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کرچکا ہے۔
تکنیکی سطح کے مذاکرات میں بجلی پر 2 روپے 80 پیسے سرچارج کی تجویز دی گئی، جبکہ پیٹرولیم لیوی بھی بتدریج 60 سے بڑھا کر 70 روپے فی لیٹر کرنے پر زور رہا۔
ماحولیاتی تحفظ کے لیے کاربن ٹیکس لگانے کی بھی تجویز معاشی ٹیم کو دی گئی ہے.جبکہ حکومت نے بجلی پر اضافی سرچارج کے سوا دیگر ٹیکسوں کی مخالفت کی ہے۔