بلاگز

امریکی سفر نامہ: عمران ملک ( دوسری قسط)

Spread the love

جیسے ہی لاھور سے دوحہ کیلیے جہاز میں داخل ہوئے تو پتا چلا کے ہماری سیٹ جہاز کی سیکنڈ لاسٹ لائین میں ہے، خدا خدا کر کے سامان اوپر والی کیبن میں رکھنے کیبعد سیٹ پر بیٹھنے لگا تو پتا چلا کے میری کھڑکی والی سیٹ اور ساتھ والی سیٹ پر ماں بیٹا بیٹھ چکے ہیں اور مجھے آنکھوں سے کہہ رہے کے آپ ISLE پر تشریف رکھیں، اپنے وزن کو دیکھتے ہوئے مجھے یہی سیٹ سوٹ کرتی ہے، لہذا فورا بیٹھنے کو غنیمت سمجھا، بیٹے کی عمر تقریبا 26 سال تھی، اور مسلسل کھانس رہا تھا، مجھے کہنے لگا انکل مجھے شدید کھانسی آرہی ہے ماسک سے دم گھٹتا ہے اگر آپ کو کوئی اور سیٹ ملے تو وہاں چلے جائیں، میں نے کہا جہاز فل ہے صرف ایئر ہوسٹس والی سیٹ خالی ہے اگر اجازت مل گئی تو وہاں چلا جاونگا، جو ناں ہو سکا، لڑکے کا گلا چونکہ خراب تھا اور ٹھنڈے پانی یا کولڈ ڈرنک سے پرہیز تھا لیکن چیتے نے کھانے کیساتھ ایئر ہوسٹس سے کوک ود آئیس کیوبز کی فرمائش کر ڈالی، جس پر اسکی والدہ نے ذرا برابر بھی لب کشائی نہیں کی، turbulence کافی زیادہ تھی لہذا چائے آرڈر ناں کی جا سکی-

قطر ایئر پورٹ پر تقریبا 20 سال بعد امد ہوئی تھی، بہت زبردست تبدیلیاں، دوبئی ایئرپورٹ کے قریب قریب پہنچ چکا، لیکن رونق دوبئی والی نہیں تھی، اگلی فلائیٹ قطر سے اٹلانٹا کی تھی جسکی طوالت 15 گھنٹے سے زیادہ کی تھی، اور ہمیں درخواست کر کے سیٹ ایگزٹ دروازے کے پاس ملی، جو کسی معجزے سے کم نہیں تھی، جتنی مرضی ٹانگیں پھیلا لیں، لیکن دو ریسٹ رومز کے بالکل پاس تھی، جب جب دروازے کھلتے، بندہ لاکھ سونے کے باوجود سو ناں سکا، پھر اوپن جگہ ہونیکی وجہ سے آخری پانچ گھنٹوں میں ہر کوئی باڈی کو stretch کرنے آجاتا اور جہاز کسی پارک کا منظر پیش کرنے لگتا، ہمارے برابر والی سیٹ پر ایک صاحب براجمان تھے جنکا مقصد تھا یا تو وہ رہیگا یا شراب رہیگی، 15 گھنٹے کی فلائیٹ میں 15 ڈرنک تو کم از کم لگائے اور 30 دفعہ واش روم گئے، 10 دفعہ واش روم کا دروازہ لاک کرنا بھول گئے، اور پانچ دفعہ میرے پاوں سے ٹکرائے اور دس دفعہ سوری بولا، تقریبا تمام فضائی عملے سے پوچھ چکے تھے کے انکا تعلق کونسے ملک سے ہے، اور یہ عمل دو سے تین مرتبہ دہرایا ہو گا، انھوں نے کافی رونق لگائے رکھی، اسکے باوجود ہم نے ایک انڈین فلم بھی دیکھ لی، اور درجن بھر گانے بھی سن لیے، قطر ایئر ویز کے عملے کو داد دینی پڑیگی کے انہوں نے 15 گھنٹے تک سب کو برداشت کیا-


پھر ایک لمبی نیند لی اور پتا چلا کے اگلے 30 منٹ میں لینڈ کر رہے، ایک ذہنی سکون سا ہوا، جیسے ہی جہاز لینڈ کیا، پائیلٹ نے بڑی شائستگی سے کہا جب تک جہاز رک نہیں جاتا، انجن بند نہیں ہو جاتے کوئی اپنی سیٹ سے ناں اٹھے، جیسے ہی جہاز کی سپیڈ آہستہ ہوئی، انجن ابھی چل رہے تھے کے ایسے لگا جیسے پاکستان میں شادیوں پر آواز لگتی ہے کے روٹی کھل گئی جے، اور طوفان بدتمیزی شروع ہو جاتا ہے، یہاں بھی لوگ جہاز کے رکنے سے پہلے ہی کھڑے ہوئے، کیبن سے سامان نکالنا شروع اور پھر بحث مباحثہ، کسی کا بیگ آگے تو کسی کا پیچھے، کسی کو کندھا لگا تو کسی کو بیگ، اور پھر سب راستے میں کھڑے کیونکہ جب تک بزنس کلاس والے آرام سے جہاز سے نکلتے نہیں، اکانومی والے فرسٹریشن میں کھڑے رہیں، اٹلانٹا ایئرپورٹ پر استقبال اچھا ہوا، لمبی لائینیں اور پھر سیکوریٹی چیک، میری باری آنے پر مائیکل نے پوچھا، سامان میں کوئی ڈرگز تو نہیں، اور میں ہکا بکا ہو گیا، کے کیا میرا حلیہ ایسا، یا میری شکل پر بارہ بجے کے پوچھا ڈرگز تو نہیں، میں نے کہا بھائی نہیں ایسے کوئی شوق نہیں، اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا اور کہا
Have a nice trip۔۔۔
جاری ہے….

پہلا حصہ پڑھنے کے لئے کلک کریں :امریکی سفرنامہ : عمران ملک (قسط 1 )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے