(اُردو ایکسپریس) *تحریر: عمران ملک*
پاکستان میں ایک عدالت نے 72 یوٹیوب چینلز بند کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے — جن میں نامور صحافی جیسے **مطیع اللہ جان، اسد طور، عمران ریاض خان، صدیق جان، حبیب اکرم، اوریا مقبول جان** اور **آفتاب اقبال** شامل ہیں۔
الزام؟ ریاستی اداروں کے خلاف "گمراہ کن اور اشتعال انگیز مواد” نشر کرنا۔
ردعمل؟ سوشل میڈیا پر غصہ، مگر ٹی وی اسکرینز پر مکمل خاموشی
جو صحافی کبھی طاقتور حلقوں کے سب سے بلند ناقد تھے، آج ان کی آوازیں بند ہیں۔
اور ٹی وی پر نہ کوئی پرائم ٹائم احتجاج، نہ یکجہتی، نہ سوال!
**کیا یہ پیشہ ورانہ غیر جانبداری ہے — یا مجرمانہ خاموشی؟**
جب اپوزیشن ارکان کو اسمبلیوں سے نکالا جا رہا ہے اور صحافیوں کی آوازیں ڈیجیٹل طور پر خاموش کی جا رہی ہیں،
تو سوال یہ ہے:**کیا اختلاف رائے کو منظم طریقے سے بند کیا جا رہا ہے؟**
یہ صرف یوٹیوب چینلز کی بات نہیں — یہ اس بات کا تعین ہے کہ
**بیانیہ کس کے ہاتھ میں ہے؟ اور اگلا نمبر کس کا ہے؟**
دنیا دیکھ رہی ہے کہ **گوگل اور یوٹیوب** اس فیصلے پر کیا ردعمل دیتے ہیں:
کیا وہ آزادی اظہار کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا مقامی سنسرشپ کے سامنے جھک جائیں گے؟جمہوریت بندش سے نہیں مرتی — وہ خاموشیوں میں دفن ہوتی ہے۔*