بلاگز

نئے صوبے، میاں عامر محمود، چوھدری عبدالرحمن اور رؤف کلاسرا

Share:
Spread the love

(اُردو ایکسپریس) تحریر: عمران ملک

نئے صوبے، میاں عامر محمود، چوھدری عبدالرحمن اور رؤف کلاسرا: سر کچھ ہمارے سوالات بھی میاں عامر اور چوھدری عبدالرحمن کے گوش گزار کر دیں

@followers Rauf Klasra

پاکستان کے معروف جرنلسٹ و اینکر رؤف کلاسرا نے اپنے ایک کالم میں بتایا کہ اُن کی اور کئی سینیئر صحافیوں و اینکرز کی ملاقات پنجاب گروپ آف کالجز، دنیا میڈیا گروپ اور یونین رئیل اسٹیٹ کے روحِ رواں میاں عامر محمود اور نیو میڈیا گروپ و سپیریئر گروپ آف کالجز و یونیورسٹیز کے چیئرمین چوہدری عبد الرحمن سے ہوئی۔ اس ملاقات میں نئے صوبوں کی تشکیل پر ڈائیلاگ ہوا۔

جب میڈیا ملازمین نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ ڈائیلاگ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہو رہے ہیں تو جواب نفی میں ملا، لیکن قارئین کو بھی اس جواب سے زیادہ تسلی نہ ہوئی۔ اگر یہ سوچ بڑے اداروں کی ہے اور ان حضرات کو فرنٹ پر لایا گیا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ مثبت بیانیہ کو مؤثر انداز میں پھیلانا سب کی ذمہ داری ہے، تو پھر ہچکچاہٹ کیوں؟

ایک اچھی تجویز یہ بھی سامنے آئی کہ ملک میں 33 صوبے ہونے چاہییں تاکہ سخت مقابلہ ہو اور نئی سیاسی قیادت سامنے آئے۔ بہتر ہوتا اگر کراچی اور اندرون سندھ کے صحافیوں کو بھی اس ڈائیلاگ میں مدعو کیا جاتا تاکہ ان کا ردعمل بھی سامنے آتا کہ وہ پنجاب کے صحافیوں سے کس حد تک مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ اگر کے ٹی این کے کسی رپورٹر کو بلا لیا جاتا تو ٹھنڈے ڈائیلاگ میں کچھ گرما گرمی بھی آ جاتی۔ میں نے خود پانچ سال کے ٹی این سندھی چینل میں کام کیا ہے، اس لیے سمجھ سکتا ہوں کہ دادو یا خیرپور کا صحافی اسلام آباد یا راولپنڈی کی سوچ سے کس طرح مختلف ہوتا ہے۔

ڈائیلاگ میں رنگ بھرنے کے لیے محمد مالک نے رؤف کلاسرا کو "پہلا وزیراعلیٰ ڈیرہ غازی خان” بنانے کی بات کی، تو جواب میں رؤف کلاسرا نے محمد مالک کو "پہلا گورنر ڈیرہ غازی خان” قرار دیا کیونکہ ان کا ددھیال وہاں وقت گزار چکا ہے۔

ایسے مواقع عموماً بڑے اور معروف اینکرز کو ہی ملتے ہیں کہ وہ میاں عامر محمود یا چوہدری عبد الرحمن سے سوالات کر سکیں۔ لیکن کچھ سوالات مائیکرو لیول پر بھی بہت اہم ہیں۔ گزارش ہے کہ رؤف کلاسرا اپنی اگلی نشست میں ان سوالات کے جواب بھی لیں۔ مثال کے طور پر:

لاہور سمیت کئی شہروں میں پنجاب و سپیریئر کالجز کی چھٹی کے وقت شدید ٹریفک جام کیوں ہوتا ہے؟ کوئی سرکاری ادارہ ایکشن کیوں نہیں لیتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں گروپوں کے میڈیا ونگ بہت مضبوط ہیں اور ایک رپورٹر کی حیثیت بھی اکثر ایک عام ایس ایچ او سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ صرف ٹریفک وارڈنز پر انحصار کرنے کے بجائے ایک مربوط سسٹم بنانا چاہیے تاکہ ٹریفک کا بہاؤ بہتر ہو سکے۔

دوسرا، یہ ادارے اپنی ساری توجہ صرف برانچز بڑھانے پر کیوں مرکوز رکھتے ہیں؟ بہتر یہ ہوتا کہ نیک نیتی سے ہر ضلع میں دو یا تین گورنمنٹ اسکول گود لے کر وہاں کے طلبہ کو بھی معیاری تعلیم فراہم کی جاتی۔

تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ جب دنیا بھر میں ڈیجیٹل میڈیا کو مین اسٹریم میں شامل کر لیا گیا ہے تو پاکستان میں اسے نظرانداز کیوں کیا جاتا ہے؟ نہ کسی نیشنل فورم پر بلایا جاتا ہے اور نہ ہی پریس کلبس ان کو ممبر شپ دیتے ہیں۔ ایک سابق صدر پریس کلب کے الفاظ ہیں: "یہ کچھ زیادہ پڑھے لکھے لوگ ہیں، اس لیے ان کو اہمیت نہیں دی جاتی۔”

اور چوھدری عبدالرحمن سے ایک سوال کے آپکا لوکل چینل لاھور رنگ کا ڈیجیٹل میڈیا پر جس قسم کے ویڈیو پیکجز صرف ریٹنگز لینے کیلیے چلائے جاتے ہیں وہ کسی بھی طرح سے پاکستانی کلچر و صحافتی اصولوں کی مطابق نہیں، اور بالکل بھی انکی ذاتی شخصت کی عکاسی نہیں کرتے، کیونکہ کوئی بھی چینل اسکے مالک کی سوچ کا عکاس ہوتا ہے اور جتنا میں چوھدری عبدالرحمن کو جانتا ہوں وہ کبھی بھی ایسی صحافت کو فروغ نہیں دے سکتے-

آخر میں، اگر نئے صوبوں کے بیانیے کو زیادہ پراثر اور مؤثر بنانا ہے تو ہر طبقہ فکر کے لوگوں کے پینلز بنا کر پورے ملک میں ایک متفقہ سوچ ڈویلپ کرنی ہوگی تاکہ اس پر تیزی اور قوت کے ساتھ عمل درآمد ممکن ہو سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے