سیلاب کی وجہ سے غربت میں اضافہ، والدین کم عمر بیٹیوں کی رقم کے عوض شادیاں کرنے پر مجبور
شدت اور سیلاب کے خدشات کے پیش نظر سندھ کے دیہی علاقوں میں کم عمر لڑکیوں کی شادی کے رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان میں کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی بلند شرح حالیہ برسوں میں کم ہو رہی ہے، لیکن سماجی کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ 2022 میں غیر معمولی سیلاب کے بعد موسمیاتی معاشی عدم تحفظ کی وجہ سے اب کم عمری میں شادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔سندھ کی زرعی پٹی کے متعدد دیہات 2022 کے سیلاب کے اثرات سے نہیں نکل سکے ہیں، جس نے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈبودیا تھا، لاکھوں افراد بے گھر اور فصلیں برباد کر دیں۔فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مون سون کی بارشوں کا آغاز ہوتے ہی دادو سے تعلق رکھنے والی 14 سالہ شمائلہ اور اس کی 13 سالہ بہن آمنہ کی رقم کے عوض شادی کردی گئی۔دگنی عمر کے شخص سے شادی کے بعد شمائلہ کا کہنا تھا کہ اس نے سوچا کہ اس کی زندگی آسان ہو جائے گی، شمائلہ کی ساس سچل بی بی کا کہنا ہے کہ انہوں نے دلہن کے والدین کو 2 لاکھ روپے دیے۔رپورٹ کے مطابق ضلع دادو کےخان محمد ملہ گاؤں میں گزشتہ مون سون سیزن سے اب تک 45 کم عمر لڑکیوں کی شادی ہو چکی ہے، ان میں سے 15 لڑکیوں کی شادی اس برس مئی اور جون کے مہینوں میں ہوئی۔لڑکیوں کے والدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو غربت سے بچانے کے لیے ان کی جلدی شادی کی،گاؤں کی رہائشی 65 سالہ مائی حجانی نے کہا کہ 2022 کے سیلاب سے پہلے ان کے علاقے میں اتنی کم عمرمیں لڑکیوں کی شادی نہیں ہوتی تھیں، وہ زمینوں پر کام کرتی تھیں۔غیر سرکاری تنظیم سُجاگ سنسار کے بانی معشوق برہمانی نے کہاکہ ان کی تنظیم بچوں کی شادیوں سے نمٹنے کے لیے مذہبی اسکالرز کے ساتھ کام کرتی ہے لیکن دور دراز علاقوں میں غربت کی وجہ سے مون سون کی دلہنوں کا ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے،انہوں نے کہا کہ خاندان زندہ رہنے کیلئے کوئی بھی ذریعہ تلاش کریں گے، پہلا اور سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنی بیٹیوں کی پیسوں کے بدلے شادی کرا دیں، 2022 کے سیلاب کے بعد سےضلع دادو کے دیہاتوں میں کم عمری کی شادیوں میں اضافہ ہوا ہے، جو کہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے جوکئی ماہ تک جھیل بنا رہا تھا۔