وزیر اطلاعات پنجاب کے دعویٰ کے برعکس ملک میں سوشل میڈیا رولز موجود ہیں
![](https://urduexpress.pk/wp-content/uploads/2024/08/375631_012057_fullstory-780x470.jpg)
(اردو ایکسپریس)
پنجاب کی وزیر اطلاعات نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم بغیر کسی سرکاری قواعد و ضوابط کے کام کر رہے ہیں۔
دعویٰ غلط ہے۔
دعویٰ
2 اگست کو لاہور ہائی کورٹ (LHC) کے باہر میڈیا بریفنگ کے دوران صوبہ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ زاہد بخاری نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس نے پاکستان میں سوشل میڈیا ایپلی کیشنز کو کنٹرول کرنے والے ضوابط کے بارے میں استفسار کیا ہے۔
عظمیٰ زاہد بخاری نے کہاکہ ”بہت سارے ممالک میں سوشل میڈیا ایپلیکیشنز رولز اینڈ ریگولیشن کے تحت موجود ہیں لیکن ہمارے ملک میں میں ایک عجیب تماشا ہے نہ کوئی رولز ہیں نہ کوئی ریگولیشن ہے جس کا جو دل چاہ رہا ہے پوسٹ کر رہا ہے آزادی اظہار رائے کے نام پر۔“
انہوں نے یہ بھی تجویز کیا کہ آن لائن پلیٹ فارمز کے لیے قوانین و ضوابط بننے کے بعد X (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری پابندی کو ہٹا دیا جائے گا۔
حقیقت
صوبائی وزیر کا بیان غلط ہے۔ پاکستان میں 2021 سے سوشل میڈیا کے ضوابط موجود ہیں، حالانکہ انہیں متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، آن لائن مواد کو کنٹرول کرنے والی قانون سازی 2016 سے نافذ العمل ہے۔
12 اکتوبر 2021 کو پاکستان نے پریونشن آف الیکٹرانک کرائم (پیکا) ایکٹ 2016 کے تحت Removal and Blocking of Unlawful Online Content (procedure Oversight and Safeguards), Rules نافذ کیے تھے
وزیراطلاعات کے اس دعویٰ کے برعکس کہ یہاں کوئی پابندیاں نہیں ہیں اور پاکستان میں کوئی بھی شخص جو چاہے انٹرنیٹ پر پوسٹ کر سکتا ہے، پیکا کا سیکشن 37، جس کا 2021 کے رولز میں بھی ذکر ہے، ایسے آن لائن مواد کو ”غیر قانونی“ بتاتا ہے جو”اسلام کی شان“، ”پاکستان کی سلامتی“، ” امن عامہ“ ”شرافت اور اخلاقیات“ اور”پاکستان کی سالمیت یا دفاع“ کے خلاف ہو، کو ہٹانے اور بلاک کرنے کی شرط عائد کرتا ہے۔