آج کل پاکستان میں جہاں بھی جائیں، دو موضوعات ہی زیرِ بحث ہیں: امریکی انتخابات اور ڈرامہ کبھی میں کبھی تم کی آخری قسط۔ بحیثیت ناظر، ہیپی اینڈنگ ہمیشہ پسند آتی ہے کیونکہ اس سے لوگ خوش ہو جاتے ہیں، لیکن اس بار کچھ خاص نہیں تھا۔ نقادوں کی توقعات کہیں زیادہ تھیں۔ وہ چاہتے تھے کہ رباب کا کردار آخر تک دکھایا جائے، اور اس کا عدیل کے ساتھ ایک آخری ٹاکرا بھی ہو، تاکہ کہانی میں تھوڑی سنسنی اور درامہ برقرار رہتا۔ مگر ڈائریکٹر نے فیصلہ کیا کہ فہد مصطفیٰ اور ایگزیکٹو پروڈیوسر کی تشہیر زیادہ اہم ہے۔
مایا خان نے بہن کا کردار بہت خوبصورتی سے ادا کیا، لیکن اس کی کہانی کے اہم پہلو جیسے کہ اس کے والدین کا اسے چھوڑنا، یا رباب اور اس کے والد کے درمیان عدیل کی لالچ اور دھوکہ دہی پر کوئی ایک منظر بھی نہیں دکھایا گیا۔ اسی طرح، فہد مصطفیٰ کے ڈریم ہوم میں شرجینا کو دکھانا بھی ضروری تھا، کیونکہ وہ ہی وہ گھر تھا جس کی وجہ سے دونوں میاں بیوی میں اختلافات پیدا ہوئے۔ بہت سے ناظرین نے اس بات پر شکایت کی کہ اس امارت میں دونوں کا آخری منظر دکھانا ضروری تھا۔
اس ڈرامے میں ایکٹنگ شاندار رہی، فہد مصطفے، بشری انصاری، جاوید شیخ ایکٹنگ کے پرانے کھلاڑی ہیں، جاوید شیخ کی کریکٹرائزیشن تھوڑی کمزور لگی، باقی تمام سینیئر اداکاروں اپنے رول بھر پور طریقے سے نبھائے، ہانیہ عامر اور عماد عرفانی نے ثابت کیا کے کیریکٹر کے ساتھ کیسے کھیلا جاتا ہے، دونوں کو لاجواب ایکٹنگ پر مبارکباد اور آخر میں نعیمہ بٹ نے رباب کے رول میں جسطرح جان ڈالی وہ سینیئر اداکاروں واقعی قابل رشک ہونا چاہیے، جسطرح سے نیگٹو رول میں ہر سین کی مناسبت سے expressions دکھائے اس پر داد تو بنتی ہے-
ڈرامے میں رومانس کا عنصر زیادہ تھا اور پیمرا کی غیر موجودگی بھی محسوس ہوئی۔ یہ ماننا پڑے گا کہ جب کہانی مضبوط ہو اور ڈائریکشن بہترین ہو، تب وہاں کسی بے جا hug یا چمٹنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فیملی ڈرامہ کا اپنا ایک تشخص ہونا چاہیے، جہاں کہانی اور اس کے پیغامات زیادہ اہم ہوں۔
اے آر وائی (ARY Digital) کو اس شاندار ڈرامے پر مبارکباد دی جانی چاہیے۔ رائیٹر فرحت اشتیاق نے لاجواب کہانی لکھی، جس میں knitting بھی کمال کی تھی، اور بدر محمود نے سکرین پلے کو بہترین طریقے سے ڈھالا، ہر سین میں ان کی مہارت دکھائی دی۔
ایک درخواست ہے ایگزیکٹو پروڈیوسرز فہد مصطفیٰ اور ہمایوں سعید سے: ٹھیک ہے کہ آپ پیسے بھی لگاتے ہیں اور پیرو بھی آتے ہیں، لیکن کوشش کریں کہ ہر دوسرے سین میں خود نہ دکھیں۔ سکرین ٹائم کو ڈائریکٹر کی صوابدید پر ہونا چاہیے، نہ کہ ایگزیکٹو پروڈیوسر کی مرضی پر۔
بیک گراونڈ سکور کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، اور ووکل بھی زبردست تھے۔ میک اپ آرٹسٹ پر ایک چھوٹا سا اعتراض یہ ہے کہ جس محنت سے اس نے فہد مصطفیٰ کے میک اپ پر کام کیا، اگر وہ اتنی ہی محنت فیمیل کریکٹرز پر بھی کرتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔