بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللّٰہ میں سیلابی ریلے میں پھنسی گاڑی میں موجود خاندان کی جان بچانے والے ایکسکیویٹر ڈرائیور محب اللّٰہ کا کہنا ہے کہ قیمتی جانوں کو سیلابی ریلے میں پھنسے دیکھ کر جو پہلی چیز سوچی وہ یہ تھی کہ اگر یہ بچے میرے اپنے ہوتے تو کیا ہوتا؟گزشتہ دنوں قلعہ عبداللہ کی کولک ندی میں سیلابی ریلے میں پھنسی گاڑی میں سوار خواتین اور بچوں سمیت 7 افراد کو ایکسکیویٹر ڈرائیور محب اللہ نے جان پر کھیل کر بچالیا تھا۔ اس وقت محب اللہ نے بتایا تھا کہ ’ایک گاڑی جس میں خاتون اور بچے سوار تھے وہ سیلابی پانی میں پھنس گئی تھی، میں نے لوگوں سے پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کرنے کو کہا تو لوگوں نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ ہماری گاڑی بھی پھنس جائے‘۔ اب جیو نیوز کے مارننگ شو’ جیو پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے محب اللہ نے بتایا کہ ’میں سیلابی ریلہ دیکھنے گیا تھا جہاں میں نے دیکھا کہ ایک گاڑی گزر رہی تھی کہ اچانک بڑا سیلابی ریلہ آگیا اورگاڑی اس پانی میں پھنس گئی، اس گاڑی میں بچے بڑے سب شامل تھے، میری نظر جب بچوں پر پڑی تو مجھے جوش آگیا‘۔محب اللہ نے بتایا کہ ’بچوں کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ اگر اس گاڑی میں میرے اپنے بچے موجود ہوتے تو میں کیا کرتا، اسی لمحے میں نے اس گاڑی کو بچانے کا فیصلہ کرلیا اور اللّٰہ کی رضا کے لیے ایکسکیویٹر لے آیا، مجھے امید تھی اللہ کی مدد اس کام میں میرے ساتھ ہوگی‘۔محب اللہ کا کہنا تھا کہ ’اور پھر اللّٰہ اور ایکسکیویٹر کی مدد سے قیمتی جانوں کو بچا لیا، مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ میں نے کیسے کیا یہ صرف اللہ کی مدد تھی جس سے میں نے قیمتی جانوں کو سیلابی ریلے سے نکالا، ڈرائیور نے مجھے باہر نکلنے کے بعد گلے سے لگالیا اور ہاتھ پاؤں چومنے لگا، اس موقع پر اس شخص نے مجھے رقم دینے کی بھی کوشش کی مگر میں نے وہ لینے سے انکار کر دیا‘۔یاد رہے کہ ایکسکیویٹر ڈرائیور محب اللّٰہ کو اس کارنامے پر چند روز قبل وزیرِ اعلیٰ بلوچستان اور کور کمانڈر کوئٹہ کی جانب سے انہیں نقد انعامات سے نوازا گیا تھا، وزیراعلیٰ نے محب اللہ کو پی ڈی ایم اے میں ملازمت دینے اور آبائی علاقے میں اسکول بنانے کا اعلان بھی کیاتھا‘۔