پاکستان

سرگودھا کی بارہ سالہ بچی اقرا کو چاکلیٹ کھانے پر ظالم میاں بیوی نے مار ڈالا۔۔!!!

Spread the love

(اُردو ایکسپریس) سرگودھا کی کم سن گھریلو ملازمہ اقرا پر ظلم کی داستان میں مزید انکشافات۔۔۔ !!!

 

راولپنڈی کے با اثر تاجر عبدالرشید کے گھر دو سال سے کام کرنے والی اقرا کی کہانی میں مزید کچھ سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں

 

تفصیلات کے مطابق اقرا پر بچوں کی چاکلیٹ کھانے کا الزام لگا کر اہل خانہ تقریبا 15 دن سے تشدد کر رہے تھے

 

تاجر نے پولیس کاروائی سے بچنے کے لیے بچی کا ایک ہفتے تک علاج بھی نہیں کروایا تاکہ پولیس کی گرفت میں نہ آ جائیں۔

 

بچی کی حالت بگڑنے پر مجبوری میں میاں بیوی اسے ہولی فیملی ہسپتال لے کر آئے جہاں سے بچی کی تشویش ناک حالت کے پیش نظر دونوں پکڑے گئے۔

 

بچی کے چچا کا بتانا تھا کہ بچی کی ٹانگیں ٹوٹی ہوئی تھیں، زبان بھی کٹی ہوئی تھی جسم پر جگہ جگہ تشدد کے نشانات تھے۔

 

راولپنڈی پولیس کے مطابق انہوں نے میاں بیوی اور ایک خاتون کو بچی پر تشدد اور قتل کے جرم میں گرفتار کر لیا ہے مزید ملوث لوگوں بارے تحقیقات جاری ہیں

 

بچی کے والد کے مطابق اس کی بچی سے ملاقات تین ماہ پہلے ہوئی تھی اور بچی کی طرف سے پہلے بھی مارپیٹ کی شکایات تھیں۔

 

بچی کا والد منڈی بہاوالدین میں ایک زمیندار کے پاس 14 ہزار روپے پر ملازم ہے اور اس کے دو بچے بھی اس کے ساتھ ہوتے ہیں

 

باپ کے مطابق اس نے بھاری قرضے کی وجہ سے 8 ہزار روپے ماہانہ پر اقرا کو اس فیملی کے پاس دو سال سے چھوڑا ہوا تھا۔

 

ہمارے معاشرے میں اقراء جیسی سینکڑوں گھریلو ملازمائیں روزانہ ظلم و زیادتی کا شکار ہوتی ہیں، مگر ان کی آوازیں کبھی عوام تک نہیں پہنچتیں۔

 

اقراء اپنے والدین کی چوتھی اولاد تھی جسے آٹھ ہزار روپے ماہوار پر عبدالرشید نامی تاجر نے اپنے گھر رکھا ہوا تھا-

 

آپ ذرا تصور کریں کہ اگر ایک چاکلیٹ پر اس جوڑے نے قتل کر دیا ہے تو جتنا عرصہ اقرا نے وہاں کام کیا ہو گا کھانا کیسے دیتے ہونگے ۔۔

 

اور یہ یاد رہے کہ اقراء نے وہاں دو سال تک کام کیا اتنے عرصے میں بچے کی تربیت نہ کر سکے وہی Typical نو دولتیوں والا مائنڈ سیٹ تو پھر اب یہ مظلومیت کا ڈھونگ کیوں؟

 

ڈاکٹرز کی رپورٹ کے مطابق بچی کے سر، بازو، ٹانگوں اور چہرے پر تیز دھار آلے سے کٹ لگائے اور اس کے بازو توڑ دیے گئے، بچی کی تشویشناک حالت کے پیش نظر میاں بیوی نے اسے ہولی فیملی منتقل کردیا۔

 

یہ واحد نیکی کی جو خود ہی اس کو ہسپتال لے آۓ۔۔

 

خیر انہیں بھی پتہ ہے کہ اس مُلک میں کوئ قانون چلے نہ چلے “دیت” کا قانون ہمیشہ سے با اثر لوگوں نے اس سے ضرور فائدہ اُٹھایا ہے بس آپ دیکھتے جائیں

 

ایک ہفتے کے بعد ہی خبر سننے کو ملے گی کہ صلح صفائ اور افہام و تفہیم کے ساتھ سب معاملات طے پا کئے ہیں۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے