(اُردو ایکسپریس) بھارتی حکومت نے استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی دو مزید کشمیری تنظیموں—جموں و کشمیر عوامی مجلسِ عمل اور جموں و کشمیر اتحاد المسلمین—کو غیر قانونی قرار دے کر ان پر سخت گیر انسدادِ دہشت گردی قانون (یو اے پی اے) کے تحت پانچ سال کی پابندی عائد کر دی ہے۔ بھارتی وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ یہ تنظیمیں علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کو فروغ دے رہی تھیں، جبکہ پاکستان اور کشمیری جماعتوں نے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔
بھارتی وزارتِ داخلہ نے نوٹی فکیشن جاری کرتے ہوئے الزام لگایا کہ مذکورہ تنظیمیں ملک کی خودمختاری اور سالمیت کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندی کو ہوا دے رہی ہیں۔ عوامی مجلسِ عمل کے رہنما میر واعظ عمر فاروق اور اتحاد المسلمین کے سربراہ مسرور عباس انصاری نے ان الزامات کو مسترد کیا اور مؤقف اپنایا کہ ان کی جدوجہد پرامن اور جمہوری اصولوں پر مبنی ہے۔
بھارتی وزیرِ داخلہ امت شاہ نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جو کوئی بھی بھارت کی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہوگا، اسے سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم، جموں و کشمیر کی حکمراں جماعت نیشنل کانفرنس سمیت کئی اپوزیشن جماعتوں نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بھارتی اقدام کو سخت گیر پالیسی کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ میر واعظ عمر فاروق نے بھی بھارتی حکومت کے الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ اختلاف رائے کو دبانے کی پالیسی سے خطے میں مزید تناؤ پیدا ہوگا۔
سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس پابندی کو کشمیر کی سیاسی آزادی پر حملہ قرار دیا، جبکہ نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ نے کہا کہ ان کے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں جو اس پابندی کے جواز کو ثابت کرتی ہو۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارتی حکومت نے کشمیری تنظیموں پر پابندی عائد کی ہو۔ گزشتہ پانچ برسوں میں متعدد علیحدگی پسند اور مذہبی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے، جن میں جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ شامل ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات کشمیری عوام میں مزید بےچینی پیدا کریں گے اور خطے میں امن کے امکانات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔